پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی وبا کا ذمے دار ایک قدرے نئے بیکٹیریا کو ٹھہرایا جارہا ہے جس نے ٹائیفائیڈ میں استعمال ہونے والی ہر دوا کو بے اثر کردیا تھا۔ اسے دواؤں سے مزاحم ایک نئے ’سپربگ‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس کی روک تھام کے امکانات بہت محدود ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی وبا کا ذمے دار ایک قدرے نئے بیکٹیریا کو ٹھہرایا جارہا ہے جس نے ٹائیفائیڈ میں استعمال ہونے والی ہر دوا کو بے اثر کردیا تھا۔ اسے دواؤں سے مزاحم ایک نئے ’سپربگ‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس کی روک تھام کے امکانات بہت محدود ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں آغاخان اسپتال اور برطانوی ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہ تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ اس ٹائیفائیڈ بیکٹیریا میں ڈی این اے کا ایک اضافی ٹکڑا لگا ہے جو اسے کئی طرح کی اینٹی بایوٹکس سے مزاحم بنارہا ہے اور اس پر کوئی دوا اثر نہیں کررہی ۔
ماہرین کے مطابق یہ ٹائیفائیڈ سب سے پہلے نومبر2016 میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں دیکھا گیا اور یہ اب تک پھیل رہا ہے۔ محققین کے مطابق اب تک اس بیکٹیریا سے بیمار اور مرنے والوں کی تعداد سامنے نہیں آسکی تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اسپتالوں کے حوالے سے خبردی ہے کہ صرف حیدرآباد میں ہی ہرطرح کی اینٹی بیکٹریا دواؤں سے مزاحمت والے مریضوں کی تعداد 800 تھی جنہیں 2016 سے 2017 کے دس ماہ میں نوٹ کیا گیا تھا۔
ماہرین نے یہ پریشان کن خبر بھی دی ہے کہ ٹائیفائیڈ پھیلانے والا یہ بیکٹیریا اب پانچ اہم اینٹی بایوٹکس دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کرچکا ہے یعنی پانچوں دوائیں اس پر بے کار ہیں اور اس طرح کی نئی اور تبدیل شدہ وبا کو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔
سینگر انسٹی ٹیوٹ کی ماہر ایلزبتھ کلیم کا کہنا ہے ہم پہلی مرتبہ ٹائیفائیڈ کی دوا کو بے اثر کرنے والی ایسی وبا کو دیکھ رہے ہیں، اس میں ایک جانب تو سخت جان بیکٹیریا موجود تھا ہی لیکن اس نے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر ڈی این اے کا ایک اضافی ٹکڑا حاصل کرکے اپنے جین بڑھائے اور ایک نئی صورت اختیار کرلی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ٹائیفائیڈ ’ سالمونیلا اینٹریکا سرو ور ٹائفی ‘ بیکٹیریا سے پھیلتا ہے اور متاثرہ پانی اور غذا سے بہت تیزی سے مریضوں کی تعداد بڑھاتا چلاجاتا ہے۔ ابتدائی علامات میں غنودگی، بخار، جسم میں درد، اور سینے پر گلابی دھبے پڑجاتے ہیں جب کہ بسا اوقات یہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
2017 میں جب آغا خان سے وابستہ ماہرین نے ٹائیفائیڈ کا یہ روپ دیکھا تو انہوں نے سینگر انسٹی ٹیوٹ سے رابطہ کیا اور ان سے اس کا جینیاتی تجزیہ کرنے کی درخواست کی۔ تفصیلی تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ ایچ 58 قسم ہے جو دواؤں کے اثر کو ختم کرتی ہے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایچ 58 نے ایک اضافی ڈی این اے ٹکڑا حاصل کرلیا ہے جو ہرطرح کی اینٹی بایوٹک کو ناکام بناتا ہے اور علاج کی کوئی راہ نہیں ہوتی۔ اس کے نتائج اب ایک تحقیقی جرنل ایم بایو میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔
ویلکم ٹرسٹ سے وابستہ شعبہ ویکسین کے سربراہ چارلی ویلر کہتے ہیں کہ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ٹائیفائیڈ کے علاج کے طریقے تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں اور اب اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔
عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ویکسین سازی کے عالمی الائنس (جی اے وی آئی) نے گزشتہ ماہ ایک نئی ٹائیفائیڈ ویکسین متعارف کرائی ہے اور غریب ممالک تک پہنچانے کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ایچ 58 قسم کا ٹائیفائیڈ 25 سے 30 برس قبل جنوبی ایشیا میں رونما ہوا تھا جس نے 2015 تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک نیا روپ اختیار کرلیا تھا۔