رپورٹ کے مطابق دور دیس کی دنیائیں، پہاڑاور سمندر ہمیشہ سے انسانوں کے لیے کشش کا باعث رہے ہیں اور انسان وہاں جانے کے خواب دیکھتارہا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شدید خطرات کی موجودگی بھی انسان کے اندر پائی جانے والی مہم جوئی کی خواہش کودبا نہیں سکی۔کرسٹوفر کولمبس اور میگیلین جیسے مہم جو اس کی بہترین مثال ہے۔
انسان چاند پر پہنچ چکا ہے لیکن چاند پر پانی نہ ہونے کے نتیجے میں یہ سیارہ انسان کے لیے بے کار ثابت ہوا ہے۔
تاہم مریخ ایک ایسا سیارہ ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ پانی کی موجودگی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرخ سیارہ انسان کی دلچسپی کا سبب بن چکا ہے اور وہاں پر انسان کی رہائش کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ ہالینڈ کی ایک تنظیم ’’مارس ون‘‘ نہ صرف اس کا خواب دیکھ رہی ہے بلکہ اس نے عملی طورپر بھی اس سمت میں پیش رفت شروع کردی ہے۔’’مارس ون‘‘ کہتی ہے کہ جو افراد مریخ پر جانا چاہتے ہیں ، وہ اس کے لیے درخواستں دیں۔ یہ ایک ’’ون وے‘‘ یعنی یک طرفہ ٹکٹ ہوگا اور کمپنی نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ ایسے افراد کا ایک گروہ تیار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو مریخ پر آباد ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق دور دیس کی دنیائیں، پہاڑاور سمندر ہمیشہ سے انسانوں کے لیے کشش کا باعث رہے ہیں اور انسان وہاں جانے کے خواب دیکھتارہا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شدید خطرات کی موجودگی بھی انسان کے اندر پائی جانے والی مہم جوئی کی خواہش کودبا نہیں سکی۔کرسٹوفر کولمبس اور میگیلین جیسے مہم جو اس کی بہترین مثال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں شاید یہ سن کر حیرت نہیں ہوگی کہ مارس ون کو اب تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں جو مریخ پر جانے کے خواہش مند ہیں۔تاہم ان افراد کو ایک چیز یاد رکھنا ہوگی ، اس سفر میں واپسی ممکن نہ ہوگی۔
سائنس دانوں کاکہنا ہے کہ کسی زمانے میں زمین اور مریخ کا ماحول ایک جیسا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ ان میں تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ایک دوسرے سے خاصی مختلف تھیں۔مریخ کے ماحول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سخت کہرداراور انتہائی سرد ہے اور یہاں پر جتنا بھی پانی ہے وہ جما ہوا یا زیرزمین ہے۔مریخ کے بارے میں شواہد موجود ہیں کہ ایک زمانے میں یہ سیارہ پانی کے سمندروں سے ڈھکاہوا تھا اور یہ وہ دور تھا جب اس کا ماحول خاصا بہتر تھا۔اب اس کا کہردار موسم سورج کی گرمی کو خلاء کی طرف جانے سے روکنے سے قاصر ہے۔
مریخ پر جانے اور آباد ہونے کے خواہش مندوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ اس کے لیے انھیں لچک دار ، مطابقت پذیر اور سوجھ بوجھ والا بننا ہوگا جو ایک ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرسکیں۔مریخ پر روانگی کے تمام مشن کو ٹی وی پر دکھایاجائے گا اورروانگی سے لیکر لینڈنگ اور رہائش تک کی لمحہ بہ لمحہ تمام تفصیل براہ راسٹ ٹی وی پر دکھائی جائے گی۔
مریخ کے سفر سے واپسی ممکن کیوں نہیں؟ بی بی سی لندن آفس کے دورے کے موقع پر ’’مارس ون‘‘ کے شریک بانی بیس لینسڈروپ نے اس سوال کا جوب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سفر سات ماہ پر محیط ہوگا جس کیو جہ سے خلاء بازوں کی ہڈیوں اور پٹھوں کی کمیت ختم ہوجائے گی۔مریخ کے انتہائی کمزور کشش ثقل والے علاقے میں وقت گذارنے کے بعد ان کے لیے زمین پر دوبارہ آباد ہونا لگ بھگ ناممکن ہوگا جس کی کشش ثقل انتہائی طاقتور ہے۔
مریخ پر جانے کے خواہش مند جن درخواست گذاروں کو لیا جائے گا ، ان کی جسمانی اور نفسیاتی تربیت کی جائے گی۔ٹیم اس سلسلے میں تمام موجودٹیکنالوجیز کا استعمال کرے گی۔ توانائی کا انتظام شمسی پینلز سے ہوگا جبکہ پانی مریخ کی زمین سے نکالا اور ری سائیکل کیا جائے گا جبکہ خلاباز اپنی خوراک خود اگائیں گے۔ ان کے پاس ایمرجنسی راشن بھی ہوگا اور ہردوسال بعد نئے خلابازوں کی آمد کے ساتھ انھیں مزید راشن بھی دیا جائے گا۔
لیکن کیا مریخ پر جانے ، آباد ہونے اور پھلنے پھولنے کی بات حقائق پر مبنی معلوم ہوتی ہے؟مریخ ایک ایسا سیارہ ہے جو سورج کے انتہائی طاقتور توانائی والے ذرات کی فائرنگ لائن میں آتا ہے جو شمسی ہوائیں کہلاتے ہیں۔مریخ کا ماحول جیسے کہ پہلے بتایا گیا کہ خاصا کہر دار ہے اور شمسی ہوائوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔جہاں تک زمین کاتعلق ہے تو اس کا انتہائی طاقتور مقناطیسی میدان ہمیں ان شمسی ہوائوں سے محفوظ رکھتا ہے ورنہ اس کے بغیر ہمارا زندہ رہنا بہت مشکل ہوتا۔اگرچہ چار ارب سال پہلے مریخ میں ایسا حفاظتی حصار موجود تھا تاہم اب یہ موجود نہیں۔
چنانچہ یونیورسٹی آف ایری زونا کی قمری اور سیاوری لیبارٹری کی ڈاکٹر ویرونیکا برے کے بقول مریخ کا ماحول زندگی کے لیے انتہائی سخت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہاں پر مائع پانی موجود نہیں۔ ماحولیاتی دبائو عملی طورپر ویکیوم کی طرح ہے جبکہ تابکاری کی سطح بہت زیادہ اور درجہ ء حرارت انتہائی متلون ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مریخ پر جانے والوں کے لیے تابکاری کا خطرہ تشویش ناک ہے۔ اس کے نتیجے میں کینسر لاحق ہوسکتا ہے۔ مدافعتی نظام شدید متاثر ہوسکتا ہے اور بانجھ پن پیدا ہوسکتا ہے۔
تابکاری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے خلابازوں کی ٹیم کو اپنے گھروں کو کئی میٹر مٹی کی تہوں سے چھپانا ہوگا جس کو انھیں خود ہی کھودنا ہوگا۔ڈاکٹر برے نے مزید کہا کہ انھیں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں کو مریخ پر آباد کیاجاسکتا ہے تاہم وہ وہاں پر طویل عرصے تک زندہ رہ سکیں گے ، اس کے بارے میں شکوک بہرحال موجود ہیں۔منصوبے کے سفیر اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر گیرارڈ ہوفٹ کا کہنا ہے کہ اس میں نامعلوم خطرات موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود تابکاری بھی زمین کی تابکاری سے خاصی مختلف ہے۔ ہوفٹ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے مریخ پر جانے کے لیے ’’مارس ون‘‘ کو درخواست دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں تجسس نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ ’’میں سائنس دان ہوں اور مجھے آس پاس کی دنیا بڑی دلچسپ لگتی ہے۔مریخ پر جانے کا خیال میرے لیے بہت اہم ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے مریخ پرجانے کے لیے اس لیے بھی درخواست دی کیونکہ درخواست دہندگان کے سامنے اس ضمن میں خاصے چیلنجز رکھے گئے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یک طرفہ ٹکٹ کی بات انھیں خوفزدہ نہیں کرسکتی۔مریخ پر کامیابی کے ساتھ رہنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا اور یہی وجہ وہ اس کے لیے اپنی تشویش اور خوف کو ایک طرف رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ درخواست دہندگان سے کہا جائے گا کہ ان کو خطرات ہیں لیکن یہ ان کی ذمے داری ہوگی کہ خطرات کو ایک حد میں رکھیں گے۔
ناسا کے خلا باز سٹان لو اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں، وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ وہ انٹارکٹکا میں رہ چکے ہیں اور حال ہی میں وہاں سے واپس آئے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ مریخ کے مقابلے میں انٹارکٹکا ایک سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹارکٹکا میں بے پناہ پانی موجود ہے۔آپ اپنے کیمپ سے باہر نکل کر سانس لے سکتے ہیں۔لہٰذا مریخ کے مقابلے میں انٹارکٹکا جنت ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پر کوئی بھی مستقل نہیں رہتا۔
دوسری جانب ’’مارس ون‘‘ کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو دریافت کرنا ہم انسانوں کے جینز میں شامل ہے۔انسانوں کا مریخ پر جانے کاخواب لازمی پورا ہوگا۔مشن چاہے کامیاب ہو یا نہ ہو، اس پر عمل ضرور کیا جائے گا اور آخر ایک نہ ایک روز ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔